کیمرے، امریکیوں کی اپنے پولیس افسروں کو جوابدہ ٹھہرانے میں مدد کرتے ہیں۔ یہ کیمرے پولیس کی بہت سی کاروں کے ڈیش بورڈوں پرنصب کیے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اب ایسے پولیس افسروں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے جو لوگوں کے ساتھ رابطے کے وقت کیمرے پہنے ہوئے ہوتے ہیں۔ لیکن کئی گھنٹوں کی اتنی ساری فوٹیج کو دیکھنے کی اجازت کس کو ہے؟ اوہائیو میں ایک عدالت کے حالیہ فیصلے کے مطابق زیادہ تر صورت حالات میں، جو کوئی بھی چاہے انہیں  دیکھ سکتا ہے۔

اس واقعے کا تعلق ایک ایسے ڈرائیور سے ہے جو ایک بڑی شاہراہ پر اپنی لین تبدیل کرتے ہوئے لہرا کر خطرناک طریقے سے گاڑی چلا رہا تھا۔ جب اوہائیو کی سٹیٹ ہائی وے پٹرول پولیس نے اسے روکنا چاہا تو ڈرائیور نے بھاگنے کی کوشش کی۔ جس کے نتیجے میں پولیس نے تعاقب کر کے اسے گرفتار کرلیا۔ ایک اخبار نے ڈیش بورڈ کے کیمرے پر اس ایک گھنٹے کے پورے واقعے کی فوٹیج دیکھنے کی درخواست کی تو پولیس نے یہ درخواست اس دلیل کے ساتھ رد کر دی کہ یہ فوٹیج “تفتیشی کاروائی کا حصہ ہے۔” اخبار نے فوٹیج تک رسائی کے لیے عدالت میں مقدمہ دائر کردیا۔

اوہائیو کی سپریم کورٹ نے اس مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے حکم دیا کہ ماسوائے پولیس کے ڈرائیور کو پکڑنے اور گرفتار کرنے کے — جو کہ ٹیپ کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے، فوٹیج کے تمام حصے اخبار کو فراہم کیے جائیں۔

عدالت نے کہا، “ہم  زیرنظر مسئلے کی ریکارڈنگ کے جائزے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ 90 سیکنڈ کے ایک حصے پر مشتمل چھان بین کے مخصوص کام کے علاوہ باقیماندہ ٹیپ کا تفتیشی کاروائی سے کوئی تعلق نہیں۔”

امریکہ میں پولیس کی زیادہ تر ذمہ داریاں ریاستی حکومتوں کے دائرہ اختیار میں آتی ہیں اور تمام کی تمام 50 ریاستیں پولیس کے کاموں میں شفافیت اور شہریوں کی نجی زندگی کے حق کے درمیان توازن پیدا کرنے کے لیے کام کر رہی ہیں۔ ہر ریاست کا جسم پر پہنے ہوئے کیمروں اور ڈیش بورڈ کے  کیمروں سے متعلق، اپنا اپنا قانون ہے۔

سینٹ لوئیس کی پولیس کے سربراہ سیم  ڈوٹسن نے نادانستہ طور پر بے قصور لوگوں کی نجی زندگی کی خلاف ورزی کے بارے میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا، “اس بارے میں کہ دوسروں کو اطلاعات میں کس طرح شریک کیا جائے، ہمیں لازماً سمجھداری سے کام لینا چاہیے۔”

” میرے خیال میں قانون کے نفاذ میں، جسم پر لگانے والے کیمروں کا  ایک کردار ہے اور یہ کیمرے باقی رہیں گے۔” – پولیس چیف سیم ڈوٹسن

ہیوسٹن میں پولیس کے نئے سربراہ آرٹ ایسویڈو کا کہنا ہے کہ کچھ  لوگوں کی سوچ کے برعکس، پولیس کے کام میں صحیح اور غلط کا پتہ چلانے کے لیے ڈیش بورڈ اور جسم پر لگے ہوئے کیمرے کوئی آسان حل پیش نہیں کریں گے۔

ایسویڈو کہتے ہیں کہ جب عام لوگ گولیاں چلانے کے کسی ایسے واقعے کی وڈیو دیکھتے ہیں جس میں پولیس ملوث ہو تو “آپ کے سامنے لوگوں کی ایک ایسی تعداد آتی ہے جو کہتی ہے، ‘ہمیں سمجھ نہیں آرہی کہ اس کا کوئی جواز ہے’ اور آپ کے سامنے ایسے لوگ بھی آتے ہیں جو کہتے ہیں، ‘ہمیں سمجھ نہیں آرہی کہ آخر مسئلہ کیا ہے۔’  لوگ واقعات کو اپنی اقدار یا پس منظر کی نظر سے، یا خود اپنے تجربات  یا قانون کے بارے میں  اپنی سمجھ بوجھ  کے مطابق دیکھتے ہیں۔”

لیکن اوہائیو کے فیصلے نے واضح کردیا ہے کہ جب معاملہ پولیس اور شہریوں کے درمیان تعامل کی نگرانی کا ہو تو ریاست شفافیت کو ترجیح دیتی ہے۔

ایسویڈو کے نقطہ نظر سے، شفافیت پولیس اور ان لوگوں کے کام آتی ہے جن کی پولیس خدمت کرتی ہے۔ وہ کہتے ہیں، “ہماری کاروں میں برسوں سے  کیمرے لگے ہوئے ہیں۔ اور اگر اب میں کاروں سے یہ  کیمرے ہٹانے کی کوشش کروں تو افسر پاگل ہو جائیں گے۔ مثبت سوچ رکھنے والا پولیس کا ہر ایک محکمہ جسم پر کیمروں کی مکمل حمایت کرتا ہے۔”