ایسے امریکی ڈاکٹر جو پاکستان میں ہنگامی طبی امداد کو بہتر بنانے پر کام کرتے رہے ہیں وہ اپنے کام کو جنگ سے تباہ حال علاقے میں شدید زخمیوں کے علاج میں مدد کرنے کی امیدیں لیے ہوئے افغانستان تک پھیلا رہے ہیں۔
جانز ہاپکنز یونیورسٹی، امریکہ کے قومی ادارہ صحت کی مدد سے، بین الاقوامی تعاون کے تحت صدمے اور شدید زخموں کے ایک تربیتی تحقیقی پروگرام کا دائرہ کار وسیع کر رہی ہے۔ پاکستان میں چلایا جانے والا یہ جدید تحقیق اور ڈاکٹریٹ کا ایک تربیتی پروگرام ہے۔ 12 سال تک آغا خان یونیورسٹی اور دیگر اداروں کے ساتھ کام کرنے کے بعد، جانز ہاپکنز یونیورسٹی اس پروگرام کا دائرہ افغانستان کے صحت کے بعض بڑے اداروں تک پھیلائے گی۔
قومی ادارہ صحت کے ترقی پذیر ممالک میں تحقیق اور تربیت میں مدد فراہم کرنے والے ‘فوگرٹی انٹرنیشنل سنٹر’ نامی شعبے کے ڈائریکٹر، ڈاکٹر راجر گلاس کا کہنا ہے، ” اموات اور معذوریوں کو کم کرنے کے لیے اِن ممالک کے اندر ہی ایسے ماہرین تیار کرنے کی حیثیت کلیدی ہے جو شدید زخموں اور صدمے کی روک تھام اور علاج کے لیے حکمت علمیوں کی نشاندہی، تیاری اور نافذ کرنے میں مدد کر سکیں۔

افغانستان میں زخمیوں کی شرح غیرمعمولی طور پر اونچی ہے۔ شورش زدہ ضلعوں میں رہائشں پذیر، 45 لاکھ افغانیوں کو شدید زخمیوں کے علاج معالجے کی سہولتوں تک محدود رسائی حاصل ہے۔ صحت کی عالمی تنظیم نے 2017 کی پہلی سہ ماہی میں دہشت گردوں کے حملوں میں زخمی ہونے کی وجہ سے 2,181 عام شہریوں کی ہلاکتوں کی اطلاع دی ہے۔
جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے زخمیوں کے بین الاقوامی تحقیقی یونٹ کے ڈائریکٹر، ڈاکٹر عدنان حیدر کو امید ہے کہ یہ پروگرام افغانستان میں عوامی صحت کی پالیسیوں پر ایسے ہی بڑے طریقے سے اثر انداز ہوگا جس طرح کہ یہ پاکستان میں اثر انداز ہو چکا ہے۔
ڈاکٹر حیدر کا کہنا ہے، “میرے نزدیک یہاں، بنیادی جدت طرازی کا تعلق ذہین افراد کے بیرونِ ملک انخلا کو … روکنا ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان سے تعلق رکھنے والے تمام زیرِ تربیت افراد کو وہاں پر کام کرنے کے لیے کہا جائے گا۔ اُن کا یہ کام نہ صرف اُن کے ڈگری کے حصول کے لیے شمار ہو گا بلکہ یہ اُن کے ملک میں زخموں اور صدمے سے متعلق پالیسیوں کے ضمن میں بھی اہم ثابت ہوگا۔
پاکستانی ماڈل
گزشتہ دہائی کے دوران ڈاکٹر حیدر اور اُن کے ساتھیوں سے تربیت پانے والے 25 ماہرین نے پاکستان میں پہلی مرتبہ شدید زخمیوں کے علاج پر ایک جامع تحقیق کی۔ اس تحقیق کا تعلق پانی میں ڈوبنے کے واقعات سے لے کر بم دھماکوں میں آنے والے زخموں کے مطالعے تک تھا۔
ڈاکٹر حیدر کہتے ہیں، ” ہم کراچی میں ہنگامی طبی امداد فراہم کرنے پر کیے جانے والے مطالعے کا ایک اہم حصہ چلے آ رہے ہیں۔” اُن کے خیال میں ترقی پذیر ممالک میں صدمے اور زخموں کو حفظانِ صحت کی ترجیحات میں شامل کرنے کے لیے، مزید تحقیق کرنا ازحد ضرورت ہے۔
دنیا میں زخموں سے ہر سال 50 لاکھ اموات ہوتی ہیں۔ اِن میں سے 90 فیصد کا تعلق کم اور اوسط آمدنی والے اُن ممالک سے ہوتا ہے جہاں ہسپتالوں کے وسائل محدود ہیں اور تربیت یافتہ عملے پر کام کا بوجھ بہت زیادہ ہے۔

گوکہ دنیا بھر میں زخموں کی سب سے بڑی وجہ ٹریفک حادثات ہیں مگر افغانستان اور پاکستان جیسے ممالک کوطویل پُرتشدد تنازعات کے اضافی چیلنجوں کا بھی سامنا ہے۔ اس پروگرام کے تحت کی جانے والی تحقیق بار بار یہ ظاہر کرتی ہے کہ پاکستان میں زخموں کی سب سے بڑی وجہ دہشت گردی ہے۔
ڈاکٹر حیدر نے اپنی مادرِ علمی، آغا خان یونیورسٹی کے ساتھیوں کے ساتھ مل کر 2005 میں اس پروگرام کی ابتدا کی۔ اس پروگرام کے گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اس کی ایک رپورٹ کی اشاعت کے بعد اس پروگرام کے ایک شراکت کار نے کراچی میں ہنگامی طبی امداد کی سروس شروع کرنے میں مدد کی۔ ایک کروڑ 80 لاکھ کی آبادی والے شہر کراچی میں ہنگامی خدمات کی کوئی باضابطہ سروس موجود نہیں تھی۔
جب پاکستان نے 2016 میں صحت کی قومی پالیسی کے تصور کی منظوری دی تو پروگرام کے کئی ایک شرکاء کو شدید زخمی ہونے والے افراد کے باب پر لکھنے کی دعوت دی گئی تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ اسے دیگر غیر متعدی بیماریوں کے ساتھ ساتھ صحت کے ایک قومی مسئلے کے طور پر تسلیم کیا جائے۔
ڈاکٹر حیدر کا کہنا ہے کہ اُن کے اِس پروگرام کے تحت 2018 کے اوائل میں پالیسی سازوں کے ایک فورم کا اہتمام کیا جا رہا ہے جس میں اس موضوع پر بحث کی جائے گی کہ زخم اور صدمہ کس طرح افغان قوم کو متاثر کر رہے ہیں۔