امریکی سمووا میں واقع ایک دور دراز جزیرے پر وہاں کے رہائشیوں کو اپنے گھروں اور کاروباروں میں لائٹیں جلانے کے لیے روزانہ جنریٹروں میں 300 گیلن ڈیزل ڈالنا پڑتا تھا۔
مگر ایک سال کے اندر اندر طےہوُ نامی اس جزیرے میں، بجلی سورج اور بیٹریوں سے حاصل کی جانے لگی ہے۔ جزیرے کا چھوٹا سا گرڈ کا نیا نظام اپنی ضرورت کی تقریباً سو فیصد بجلی قابل تجدید توانائی سے پوری کر رہا ہے۔
ڈیزل مہنگا اور گندہ تھا اور اسے کشتیوں کے ذریعے جزیرے پر لایا جاتا تھا۔ طےہُو کے ایک رہاشی کیتھ آہسُون کا کہنا ہے،”مجھے وہ وقت یاد ہے جب دو ماہ تک یہاں کشتیاں نہیں پہنچ پاتی تھیں۔”راشن بندی اور موم بتیوں کی روشنی زندگی کی حقیقتیں ہوا کرتی تھیں۔ وہ مزید کہتے ہیں،” ایسے میں زندگی گزارنا مشکل ہو جاتا ہے جب آپ کو علم نہ ہو کہ کیا پیش آنے والا ہے۔”
آج آہسُون کو ایسی بجلی میسر ہے جس کی ترسیل پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔ نیا نظام کیسے کام کرتا ہے اس کی تفصیل ذیل میں دی جا رہی ہے:
- 5,328 شمسی پینل طےہُو کے 600 رہائشیوں کے لیے بجلی پیدا کرتے ہیں۔
- امریکی کمپنی ٹیسلہ کی تیار کردہ دوبارہ چارج ہونے والی 60 “پاور پیک” بیٹریوں میں رات کو یا ابرآلود دنوں میں استعمال کے لیے فالتو بجلی ذخیرہ کر لی جاتی ہے۔
- اس نظام کے تحت بجلی تین دنوں تک ذخیرہ کی جا سکتی ہے اور دوبارہ چارج کرنے کے لیے سات گھنٹے کی دھوپ کی ضرورت ہوتی ہے۔
https://twitter.com/solarcity/status/801050994436145152
شمسی توانائی کا استعمال قیمتوں کے اتارچڑھاوً والے ناقابل بھروسہ ڈیزل پر انحصاار کی نسبت سستا ثابت ہوا ہے۔ امریکہ کے تحفظِ ماحول کے ادارے اور محکمہ داخلہ نے اس منصوبے میں مالی مدد کی۔
طےہُو اس سلسلے میں واحد جزیرہ نہیں ہے۔ دنیا بھر میں معدنی ایندھن پر انحصار کرنے والی جزائر پر آباد بہت سی بستیاں طےہُو کے نقش قدم پر چلنے کے لیے پر تول رہی ہیں۔ ٹیسلہ کی جانب سے حال ہی میں خریدی جانے والی سولرسٹی نامی کمپنی اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ تقریباً پوری دنیا میں ڈیزل کی نسبت شمسی توانائی اور توانائی کے ذخیرے پر اٹھنے والی لاگتیں کم ہوتی جا رہی ہیں۔
آہسوُن کا کہنا ہے، “یہ تاریخ سازی کا ایک حصہ ہے اور جزیرے کے رہائشیوں کو عالمی حدت کے اثرات کا براہ راست تجربہ ہو رہا ہے۔ ان طریقوں سے دنیا میں کاربن کی مقدار میں کمی واقع ہوگی۔ “