سوشل میڈیا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایرانی عوام کی بہتر مستقبل کے لیے جدوجہد

ایران میں مظاہرہ کرنے والے طلبا نے موبائل فون ہاتھ میں پکڑے ہوئے ہیں۔ (© AP Images)

دنیا بھر میں ترقی کے لیے آن لائن کمیونٹیاں اکژ سوشل میڈیا سے فائدہ اٹھاتی ہیں اور اس میں ایران بھی شامل ہے۔

انٹرنیٹ کی بنیاد پر چلنے والا سوشل میڈیا اور وسیع پیمانے پر پیغامات پھیلانے والے “ایپس” کے استعمال سے تبادلہِ خیالات، بحث مباحثے اور بعض اوقات عوامی سطح کی تحریکوں کو تقویت ملتی ہے۔ حال ہی میں ایرانی عوام بدعنوانی کے خاتمے اور بہتر اقتصادی مواقعوں کے مطالبات کی خاطر سڑکوں پر نکلے۔

تاہم ابتدائی چند دنوں کے مظاہروں کے بعد ایرانی عوام کے سامنے یہ بات آئی کہ ایران کی ٹیلی مواصلات کی وزارت نے مقبول عام میسیجنگ اور سوشل میڈیا کے ایپس کو بند کر دیا ہے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے 5 جنوری کو ہونے والے ایک ہنگامی اجلاس میں اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر نکی ہیلی نے کہا، “مظاہرین کے مابین روابط کاٹنے کے لیے ایرانی حکومت انٹرنیٹ تک رسائی کو منقطع کر رہی ہے۔ وہ ایرانی عوام کی آواز کو دبانا چاہتی ہے۔ ہم ایسا ہونے کی اجازت نہیں دے سکتے۔”

آزادیِ تقریر کی اس شکل کو دبانا ایک طویل المدتی نقصان ہے۔ پچھلی مرتبہ 2009ء میں ایران میں ہونے والے ملک گیر مظاہروں کے وقت 15 فیصد ایرانیوں کو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل تھی۔ آج نصف سے زائد ایرانیوں کو یہ سہولت حاصل ہے۔ اور آٹھ  کروڑ والے اس ملک میں چار کروڑ اسی لاکھ  لوگوں کے پاس سمارٹ فون ہیں۔

سوشل میڈیا سائٹوں کو کھلا رکھنے کی ایرانی حکومت کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے امریکہ کے محکمہِ خارجہ کے ایک اہلکار سٹیو گولڈسٹائین کہتے ہیں، “سوشل میڈیا باہمی رابطے کا ایک قانونی ذریعے ہے۔”

‘سفید بدھ کے متاثر کن ایام’

سوشل میڈیا پر پھیلنے والی ایک مخصوص تصویر نے ایرانی عوام کی امنگوں کو جِلا بخشی ہے۔ تصویر، وڈیو یا تصویری خاکے کی شکل میں دکھائی جانے والی اس تصویر میں، ایک مصروف سڑک پر ایک ایرانی خاتون اپنا دوپٹہ ہوا میں لہرا رہی ہے۔ بہت سے لوگوں کے لیے یہ خاتون آج کل ہونے والے اُن مظاہروں کا چہرہ بن چکی ہے جس کا آغاز ایران کے دیہی علاقوں سے ہوا۔ (سائیڈ بار میں انٹرنیٹ کے آنے سے پہلے کے دور کی وہ تصاویر ملاحظہ فرمائیے جو امریکی تاریخ میں سماجی تحریکوں کی علامتیں بن چکی ہیں۔)

درحقیقت اس ایرانی خاتون کی تصویر ایران میں ہونے والے حالیہ مظاہروں سے قبل اس وقت بنائی گئی تھی جب یہ خاتون ‘سفید بدھ نامی تحریک’ میں شریک تھی۔ اس تحریک میں شامل عورتیں یہ احتجاج کرنے کے لیے سفید دوپٹہ اوڑھتی ہیں کہ انہیں عوام میں اپنا سر ڈھانپنے یا نہ ڈھانپنے کے انتخاب کا اختیار ہونا چاہیے۔

View this post on Instagram

نوشين زرگري در فيسبوكش چه زيبا نوشته: «دختری در انقلاب» عکس این دختر را که دیروز در اعتراض به حجاب اجباری در خیابان انقلاب، روسری اش را برداشت، بارها نگاه کردم، در پوشش ساده و محکم اش دقت کردم، در خونسردی عمیقش دقیق شدم، در جوانی بی بدیلش غرق شدم. کار این دخترک سمبلیک نیست، او حتا مانتو نپوشیده است. برای وقارش، برای جسارت اش از گذشتن از مرزها، برای شجاعت اش، برای به جان خریدن خطر حتا اگر بازداشتی دو ساعته باشد، قلبم از فرسخ ها فاصله برایش تپید. جوری ایستاده گویی مجسمه ی آزادی ست بر فراز ترس ها، سرخوردگی ها و نداشتن ها، طوری ایستاده که گویی حقش را یکبار و برای همیشه در چنین سکوت محشری در مشت گرفته. او را ندیده ام، او را نمی شناسم، اما حتم دارم تصویرش بعنوان اولین زنی که با سکوت این چنین حرف زد و آن زائده ی اجباری و بی معنی را در هوا تکان داد، در حافظه و قلب ما ثبت خواهد شد، دختری که با کتانی سفید، برای دقایقی به اندازه ی قرن ها حرف زد، دختر جان، تو به اندازه ی همه ی ترس های ما نترسیدی و بی ادعا و بی اعتنا به نگاه های گنگ پایین پای ات در جایی ایستادی که ما هرگز نایستادیم، نامت را نمی دانیم اما جسم و روح بدون همراه و تنهایت را در این جمعیت میلیونی با این نام به خاطر خواهیم سپرد: «دختری در انقلاب». فيلم هاي تان را لطفا به اين شماره تلگرام بفرستيد 0017184064505 آي دي تلگرام: @masihvoice #چهارشنبه_های_سفید #چهارشنبه_های_بدون_اجبار #whitewednesdays

A post shared by Masih Alinejad (@masih.alinejad) on

رابطے کو جاری رکھنا

لاکھوں ایرانی، حکومت کی انٹرنیٹ، بیرونی دنیا اور ایک دوسرے تک رسائی کو بند کرنے کوششوں سے بچ کر انٹرنیٹ استعمال کرنے کے راستے ڈھونڈ رہے ہیں۔ کچھ لوگ نامعلوم براؤزر اور ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک یا وی پی این استعمال کر رہے ہیں جس سے انٹرنیٹ تک رسائی حاصل کرنے میں رکاوٹیں ڈالنے والی جغرافیائی بندشوں یا فلٹروں سے بچا جا سکتا ہے۔

سال 2017 کے دوران 40 لاکھ سے زائد ایرانیوں کا انحصار امریکہ کے محکمہِ خارجہ کی جانب سے مہیا کردہ سنسرشپ سے بچنے کے وسائل پر رہا۔ جیسا کہ محکمہِ خارجہ کی ہیدر نورٹ نے 2 جنوری کو کہا، “جب کوئی حکومت سوشل میڈ کو بند کرتی ہے تو ہم یہ سوال پوچھتے ہیں، ‘آپ کس سے ڈر رہے ہیں۔'”

تصاویر تبدیلی لاتی ہیں

امریکہ میں انٹرنیٹ کی آمد سے قبل بھی جذباتی تصاویر سماجی تحریکوں کی صورت گری کرتی رہی ہیں۔

ڈوروتھیا لینگ کی 1936 میں لی جانے والی تصویر، ایک 32 سالہ سات بچوں کی ماں کی کساد بازاری کے دوران جھیلنے والی مصیبتوں کی علامت بن گئی۔ اس تصویر کو دیکھ کر امریکیوں میں غریبوں کی مدد کے لیے اور زیادہ کام کرنے کا جذبہ پیدا ہوا۔

Mother with children (Library of Congress)
(Library of Congress)

1963 میں واشنگٹن میں مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کی “میرا ایک خواب ہے” نامی تقریر نے انسانی حقوق کے ایجنڈے کو تیزی سے آگے بڑھایا۔

Martin Luther King Jr. waving to large crowd, Washington Monument in background (© AP Images)
(© AP Images)

مظاہروں میں شامل ایک شخص فوجیوں کی بندوقوں میں پھول رکھ رہا ہے۔ یہ تصویر امریکہ کے ویت نام کی جنگ میں ملوث ہونے کے خلاف پُرامن مزاحمت کی علامت بن گئی۔

Soldiers holding rifles, man putting flowers in their barrels (© Bernie Boston/Washington Post via Getty Images)
(© Bernie Boston/Washington Post via Getty Images)

2016ء میں ریاست لوزیانا کے شہر باٹن روژ میں پولیس کی بربریت کے خلاف احتجاج کرنے والی ایک پُر اعتماد خاتون کی یہ تصویر انٹرنیٹ پر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور اس تصویر نے “بلیک لائیوز میٹر” [سیاہ فاموں کی زندگیاں بھی قیمتی ہیں] نامی مہم میں جان پیدا کر دی۔

Woman in dress facing armored police (© Jonathan Bachman/Reuters)
(© Jonathan Bachman/Reuters)