نائجیریا میں ایک گروپ دیہی کمیونٹیوں کی بدعنوانیوں کو جڑ سے اکھاڑنے اور وعدوں کو پورا کرنے کو یقینی بنانے کی خاطر حکومتی ڈیٹا بیسوں اور سوشل میڈیا سے کثیر تعداد میں معلومات حاصل کر رہا ہے۔
یہ کام، جسے پیسے پر نظر رکھنا کہا جاتا ہے، مربوط ترقیات نامی ایک غیرمنفعت بخش تنظیم کی جانب سے چلائی جانے والی ایک مہم ہے۔ اسے نائجیریا کے حمزہ لاوال اور اولدوتون بابیمی نامی دو سرگرم سماجی کارکن چلا رہے ہیں۔ یہ دونوں اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ حکومتی ڈیٹا تک شہریوں کو آسان رسائی حاصل ہونا چاہیے۔
“ڈیٹا کھنگالنے والے” صحافیوں اور قانون اور اطلاعات کے ماہرین پر مشتمل یہ لوگ پیسے پر نظر رکھنے اور یہ جاننے کے لیے کہ کونسی رقم کس مقصد کے لیے تھی اور اسے کہاں خرچ کیا جانا تھا، عام طور پر دستیاب سرکاری اطلاعات کا جائزہ لیتے ہیں۔ جو اطلاعات با آسانی دستیاب نہ ہوں تو ان کے حصول کے لیے وہ نائجیریا کے فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ یعنی ‘حصول معلومات کی آزادی کے قانون’ کو استعمال میں لاتے ہیں۔
اس وقت یہ گروپ حسب ذیل فنڈز کی نگرانی کر رہا ہے:
- جنوب مشرقی نائجیریا کی ریاست اینوگو میں صحت کے مراکز کو بہتر بنانے کے لیے مخصوص کیے گئے15 لاکھ ڈالر۔
- ملک کے وسط میں واقع نائجیریا کی پلیٹو ریاست کے شہر واسے میں صحت کے ایک مرکز کی تعمیر کے لیے وعدہ کیے گئے 46,740 ڈالر۔
- شمال مشرقی نائجیریا کی ریاست گامبے کے شہر ٹونگو میں کلاس رومز کی تعمیر کے لیے بجٹ میں رکھے گئے 63,000 ڈالر۔
لاوال کا کہنا ہے کہ اس قسم کے فنڈز عام طور پر چوری ہوجاتے ہیں یا انہیں جس کام کے لیے مخصوص کیا جاتا ہے، اس کی بجائے انہیں کہیں اور خرچ کردیا جاتا ہے۔

لاوال نے ایک بلدیاتی پراجیکٹ کی مثال دی جس میں حکومت اس بات پر رضا مند ہوگئی تھی کہ وہ ہر مقامی مزدور کو نائجیریا کی کرنسی میں 1,500 نائرے ادا کرے گی، جو کہ امریکہ کے 5 ڈالر کے برابر ہیں۔ مگر سرکاری اہلکار نے ہر مزدور کو 150 نائرے یا 50 سینٹ ادا کرنے کی کوشش کی۔
اہک مقامی مزدور نے اس اہلکار کا سامنا کیا اور کہا، “ہمیں ‘ پیسے پر نظر رکھو’ نے جو اطلاعات فراہم کی ہیں ان کے مطابق مجھے اپنے کام کے بدلے میں 1,500 نائرے ملنے چاہئیں۔ براہ مہربانی مجھے یہ رقم ادا کی جائے۔”
لاوال نے کہا کہ اگر اس مزدور کو “با اختیار نہ بنایا گیا ہوتا تو وہ سرکاری اہلکار، ہر مزدور کے 1,000 نائرے اپنے پاس رکھ لیتا۔”
لاوال اور بابیمی نے ‘پیسے پر نظر رکھیے’ نامی مہم کا 2012ء میں اس وقت آغاز کیا جب شمالی نائجیریا کی ریاست زمافرا کے ایک گاؤں بیگاگا میں سیسے کے زہر کے پھیلنے کی بدترین وباء پھوٹ پڑی۔ اس وباء پر قابو پانے کے لیے بین الاقوامی تنظیموں اور نائجیریا کی حکومت نے جس 40 لاکھ ڈالر سے زائد رقم کی فراہمی کا وعدہ کیا تھا اس کا ایک دھیلا بھی اس گاؤں تک نہ پہنچا۔
چنانچہ انہوں نے ہیش ٹیگ #SaveBegaga کو استعمال کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر ‘ پیسے پر نظر رکھیے’ کی مہم چلا دی، جس کے باعث بین الاقوامی توجہ اس گاؤں کی حالت زار پر مرکوز ہوگئی۔ اس مہم کو خود صدرگُڈ لک جوناتھن کے فیس بک پیچ بھی چلایا گیا ۔ چنانچہ 48 گھنٹوں کے اندر اندر حکومت نے بیگاگا کے لیے 54 لاکھ ڈالر کی رقم جاری کردی۔ ‘پیسے پر نظر رکھیے’ مہم نے اس جاری کردہ رقم کے استعمال کی جولائی 2013 میں بیگاگا کو سیسے کے زہر کے اثرات سے مکمل طور پر پاک کرنے تک نگرانی جاری رکھی۔

ایسے واقعات بڑھتے جارہے ہیں، جن میں یہ گروپ کسی بدعنوانی کے واقع ہونے سے پہلے ہی اسے روک سکتا ہے۔ لاوال نے کہا، “ہم سوشل میڈیا کے دباؤ سے بہت کام لیتے ہیں۔ ہماری مہمات کا رُخ عام طور پر براہِ راست صدر کی جانب ہوتا ہے۔ صدر اصل فنڈز کو جاری کرنے کے لیے غالباً وزیر خزانہ کو اختیار دیتے ہیں۔”
لاوال کا کہنا ہے کہ اس کے بعد وزیر خزانہ بد عنوان سیاست دانوں سے یہ کہہ سکتا ہے، ” اس معاملے کی ‘پیسے پر نظر رکھیے’ پہلے سے نگرانی کر رہی ہے۔ ایسا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ یہ پیسہ کسی اور کی جیب میں چلا جائے اور اس طرح ہم دارالحکومت سے لے کر کمیونٹی تک، پیسے پر نظر رکھتے ہیں۔”