ناسا کا ادارہ دو انتہائی جدید ترین خلائی دوربینوں کو 2018ء میں خلا میں بھیجنے کی تیاری کر رہا ہے۔ ان میں سے ایک دوربین کائنات کی اولین روشنی کو تلاش کرے گی جبکہ دوسری سے ہماری خلائی ہمسائیگی میں زمین جیسے، ہزاروں نہیں تو سینکڑوں سیارے پائے جانے کی توقع ہے۔
اِن دونوں میں سے بڑی ‘جیمز ویب خلائی دوربین’ ہے اور یہ بالکل سائنسی افسانوں میں پائی جانے والی دوربینوں جیسی دکھائی دیتی ہے۔

اس دوربین میں روشنی روکنے والی ہیرے جیسی ڈھال پر شہد کی مکھیوں کے چھتے کی طرح کے 18 سنہری آئینے نصب ہیں۔ یہ اپنی پیشرو ٹیوب نما ‘ہبل دوربین’ سے، قطعی طور پر مختلف دکھائی دیتی ہے۔ ہبل دوربین کو 1990 کی دہائی میں خلا میں بھیجا گیا تھا اور اس عرصے میں ہمیں اس دوربین سے یادگار خلائی تصویریں موصول ہوئیں۔
ویب دوربین، انفراریڈ [سرخ طیفی] طریقے سے مختلف رنگوں میں تصاویر کھینچے گی جن کے ذریعے کائنات کو ہم ایک مختلف انداز سے دیکھ پائیں گے۔ انفرا ریڈ دوربینیں ‘حدت’ کی شناخت کر سکتی ہیں۔ تاہم ویب ایسے ‘ٹھنڈے’ اجسام کی نشاندہی کرے گی جو دوسری دوربینوں سے دکھائی نہیں دیتے۔ ان میں سیارے، بین النجوم مادے کی دھول اور نئے تخلیق ہوتے ہوئے ستارے بھی شامل ہوں گے۔ ویب دوربین اپنے 6.5 میٹر کے بڑے آئینے کی بدولت دنیا کی سب سے بڑی انفراریڈ خلائی دوربین ہوگی۔
امریکی خلائی ادارے کو یقین ہے کہ ویب دوربین، زمین سے دکھائی دینے والے مدھم ترین ستاروں سے 10 ارب گنا زیادہ مدھم اجسام کی تصاویر بھی لے سکے گی۔ مدھم ترین اجسام کی تصویریں کھینچنے کے حوالے سے، ویب کی صلاحیت ہبل کے مقابلے میں 100 گنا زیادہ ہے۔
حیران کُن تحقیق
سائنس دان سمجھتے ہیں کہ ویب دوربین کی طاقتور آنکھ سے، کائنات کی اولین روشنیاں بھی دکھائی دینی چاہئیں۔ ابتدائی کہکشاؤں کی روشنی 13.5 ارب سال سے زمین کی جانب سفر کر رہی ہے اور ویب کو ہماری کائنات کی پیدائش کے وقت کی تصاویر بھی لینی چاہئیں۔
ویب دوربین پر کام کرنے والے نوبیل انعام یافتہ سائنس دان، جان میدر کے مطابق زندگی کے عناصر اربوں سال پہلے پیدا کیے گئے تھے۔ وہ کہتے ہیں، “انہی عناصر کی بدولت آج ہم یہاں موجود ہیں اور ہم بہتر طور سے جاننا چاہتے ہیں کہ یہ سب کچھ کیسے ہوا۔”
ناسا اور اس کے شریک کار یورپی اور کینیڈین خلائی اداروں کو، اکتوبر 2018 میں فرنچ گیانا سے ویب دوربین خلا میں بھیجنے کی توقع ہے۔
کائنات کے ابتدائی دور کو دیکھنے کے علاوہ، یہ دوربین دور دراز سیاروں کے ماحول کو جاننے کی کوشش بھی کرے گی۔ ممکنہ طور پر اس دوربین کی مدد سے یہ بھی معلوم کیا جا سکے گا کہ آیا کوئی سیارہ زندگی کے لیے موزوں ہے یا نہیں۔ سائنس دان ویب اور متوقع طور پر 2018 کے اوائل میں خلا میں بھیجی جانے والی، TESS [ٹیس] نامی دوسری دوربین سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کو استعمال کریں گے۔
ٹیس آسمانوں کا جائزہ لے گی
TESS ‘ٹرانزٹنگ ایکسوپلینٹ سروے سیٹلائٹ’ کا مخفف ہے ۔ ایکسوپلینٹ سے مراد ایسے سیارے ہیں جو ہمارے نظام شمسی سے باہر ستاروں کے گرد چکر لگاتے ہیں۔
ٹیس کا مشن نظام شمسی کے قرب و جوار میں ایسے سیارے ڈھونڈنا ہے جہاں ممکنہ طور پر زندگی کے لیے حالات سازگار ہوں۔ میسا چوسیٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے جارج ریکر کہتے ہیں کہ “اپنے دو سالہ مشن میں اس دوربین کو زمین سے 200 نوری سال کے فاصلے پر ایسے ہزاروں سیارے ڈھونڈنے چاہئیں۔”
یہ دوربین ستاروں کی ٹمٹماہٹ کا جائزہ لے گی۔ ستاروں کی ٹمٹماہٹ اس کے سامنے سے گزرنے والے گردشی سیاروں کے باعث وجود میں آتی ہے۔ ٹیس دوربین انتہائی دلچسپی کے حامل سیاروں کی نشاندہی کرے گی اور سائنس دان ان کا مزید جائزہ لیں گے۔ متوقع طور پر ناسا اس دوربین کو فلوریڈا میں کیپ کنیوریل اڈے سے سپیس ایکس راکٹ کے ذریعے خلا میں بھیجے گا۔

ٹیس اور جیمز ویب دوربینوں سے حاصل ہونے والا ڈیٹا، بالٹی مور میں واقع ‘سپیس ٹیلی سکوپ سائنس انسٹیٹیوٹ’ کے ذریعے، فلکیاتی ماہرین اور عام لوگوں کو دستیاب ہو گا۔ یہ ادارہ ناسا اور دنیا بھر کی یونیورسٹیوں کی شراکت سے قائم کیا گیا ہے۔
سائنس دانوں کو امید ہے کہ یہ دونوں دوربینیں ہمیں کائنات کے ماضی اور انسانیت کے مستقبل کی بابت بہت کچھ بتائیں گی۔ ٹیس پراجیکٹ کے مینیجر، جیف وولوسن کہتے ہیں “مجھے اب بھی امید ہے کہ میری زندگی میں ہی ہمارے نظامِ شمسی سے باہر کہیں زندگی دریافت ہو جائے گی۔ میں اس تلاش کے ایک کلیدی زینے کا کردار ادا کرنے والے ناسا کے مشن کا حصہ ہونے پر بے حد خوش ہوں۔”